مسٹر ڈیولن محکمہ آب کاری (ایکسائز) کے مہتمم تھے۔ اردو نوشت ا ور فوائد پر انہیں عبور حاصل تھا۔ یارباش اور مہم پسند انسان کی حیثیت سے لوگ ان کے بڑے گرویدہ تھے۔ دسمبر کی پندرہ تاریخ سے 8 جنوری تک وہ شہر سے باہر کسی ندی یا جھیل کے کنارے خیموں کی ایک مختصر بستی آباد کرلیتے تھے۔ صبح سے شام تک دفتری امور نمٹانے کے بعد بقیہ وقت اسی کیمپ میں گزارتے ۔ ان کے یار احباب جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہوتی تھی سیروشکار میں مصروف رہتے تھے۔ رات دیر گئے تک بڑے خیمے میں بڑے جوش وخروش سے محفل جمتی۔ گرم گرم کافی کے پیالے‘ خشک میوے اور ہرن کے کباب اڑا کر سردی کا بھرپور طریقہ سے مقابلہ کیا جاتا۔ قصے کہانیوں کا سلسلہ چھڑتا اور لطیفے اور قہقہے رات کے سناٹے کو توڑتے رہتے۔
ایک روز علاج معالجوں کے واقعات کا سلسلہ چھڑا تو مسٹر ڈیولن نے اپنی مریضانہ زندگی کا ایک عجیب واقعہ سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ کئی سال پہلے ان کا تبادلہ ضلع عادل آباد ہوگیا۔ یہ ضلع گھنے جنگلات اور جنگلی جانوروں کی کثرت کے علاوہ گونڈ قبائل کا علاقہ تھا۔ سرکاری ملازمین یہاں شہری سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے جاتے ہوئے کتراتے تھے۔ مسٹر ڈیولن کیلئے تبادلے کا حکم نوید مسرت ثابت ہوا کیونکہ ایک شکاری کی حیثیت سے وہ بھی اسے شکاریوں کی جنت سمجھتے تھے۔ وہ ایک روز بارہ بور کی بندوق لے کر ڈنر کیلئے تیتر شکار کرنے نکلے۔
جنگل ان کے بنگلے سے بالکل لگا ہوا تھا۔ وہ اکثر سرمغرب ایک آدھ گھنٹے کی تگ و دو کے بعد 12,10 تیتر شکار کرلیتے تھے‘ اس روز بھی انہوں نے روز کی طرح چھروں والے کارتوس ساتھ رکھے تھے۔ تیتروں کی آہٹ پاکر وہ چوکس ہوگئے اور انہوں نے ان پر فائر کھول دیا لیکن دوسرے لمحے قریب کی جھاڑیوں میں چھپا ایک تیندوا مشتعل ہوکر ان پرٹوٹ پڑا اور ان کی پنڈلی چبا کربھاگ گیا۔ انہوں نے گھر پہنچ کر فوراً سول سرجن کو گاڑی بھیج کر بلوالیا۔ ڈاکٹر نے ضروری مرہم پٹی کردی۔ اس کی رائے میں زخم معمولی تھا۔ دوا اور علاج کا سلسلہ چلتا رہا لیکن مسٹر ڈیولن کا یہ زخم اچھا ہونے کی بجائے بگڑتا گیا۔ ڈاکٹر کے مشورے سے وہ شہرچلے گئے اور بڑے بڑے دیسی اور بدیسی ڈاکٹروں سے ناکام علاج کروا کر بالآخر اپنے مستقر لوٹ آئے۔ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اب پیر کٹوا ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
ضروری کام نمٹا کر وہ اس غرض سے طویل رخصت پر جانے والے تھے۔ اسی دوران ضروری سرکاری کام کے سلسلے میں انہیں ایک تحصیل کے دورے پر جانا پڑا۔ یہ انتہائی گھنے جنگلات کا علاقہ تھا۔ ڈاک بنگلے میں دن بھر کام کرنے کے بعد وہ اپنے کتے کے ساتھ سامنے واقع پہاڑی پر چلے گئے۔ اتنے میں انہوں نے آہٹ سنی ایک ہندو جوگی گھنے جنگل میں سے برآمد ہوا۔ مسٹر ڈیولن کو اس نے سلام کیا اور کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے اس کا اتا پتہ پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ معالج ہے اور جنگل و کہسار میں گھومتا اور جڑی بوٹیاں جمع کرتا رہتا ہے۔ اس نے مسٹر ڈیولن سے ان کی پٹیوں میں جکڑی ٹانگ کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے اسے ساری کتھا سنادی اور پوچھا کہ کیا وہ ان کی ٹانگ کو کٹنے سے بچاسکتا ہے؟ جوگی نے بتایا کہ وہ اس زخم کا علاج کرسکتا ہے لیکن علاج خاصا ناگوار قسم کا ہے اگر وہ اس کیلئے تیار ہیں تو وہ کل صبح دوا تیار کرکے لے آئے گا۔ اپنے پیر کی سلامتی کیلئے متفکر مسٹر ڈیولن نے علاج کی حامی بھر لی اور جوگی اگلی صبح آنے کا وعدہ کرکے وادی میں آباد گاوں کی جانب چلا گیا۔
صبح وہ اپنے ساتھ مٹی کی ایک ہانڈی لے کر آیا۔ اس میں انتہائی بدبودار لیپ تھا۔ مسٹر ڈیولن کی پٹی کھول کر اس نے یہ گاڑھا لیپ زخم پر تھوپ دیا اور کپڑا رکھ کر پٹی لپیٹ دی۔ جوگی نے بتایا وہ تیسرے دن صبح تڑکے آئے گا۔ اس وقت تک پٹی ہرگز نہ کھولی جائے۔ مسٹر ڈیولن نے بڑے صبر کے ساتھ اس گرم اور بدبودار لیپ کو برداشت کیا۔ اس عرصے میں زخم کی کھولن وغیرہ ختم ہوگئی۔ تیسرے روز جوگی نے آکر پٹی کھولی تو لیپ کی تہہ پر مواد اور گلی سڑی جلد وغیرہ لگی ہوئی تھی اور زخم مندمل ہونے کے آثار پیدا ہوگئے تھے۔ جوگی نے گائے کے دھلے ہوئے مکھن میں کافور‘ کتھا سفید اور مردار سنگ جیسی دوائیں شامل کرکے ایک مرہم بنادیا اور اسے لگاتے رہنے کی ہدایت کی۔ مسٹر ڈیولن کے اصرار پر اس نے لیپ کا نسخہ بھی بتا دیا جو بقول اس کے صرف کتوں کا پرانا فضلہ تھا۔ اس نے پانی میں اس کو پکا کر بطور لیپ لگایا تھا۔ اللہ جانے اس میں تیندوے کے دانتوں سے ہونے والے زہریلے زخم کو مندمل کرنے کی کیا صلاحیت تھی کہ مہینوں سے پریشان مسٹر ڈیولن تین روز کے اندر ہی شفاءیاب ہونے لگے اور یوں ایک انگریز کی ٹانگ کٹنے سے بچ گئی۔
٭چار سال پہلے کی بات ہے میرے پٹھوں میں درد رہنے لگا معالجین نے اسے ریشی درد قرار دیا اور انتہائی سخت تکلیف کیلئے مانع پستی دوا تجویز کردی۔ لیکن اس سے کوئی خاص فائدہ نہ ہوا۔ اس درد کے مارے رات کی نیند کا چین مجھ سے چھن گیا تھا۔ ایک روز میں نے اپنی اس تکلیف کا ذکر اپنی ایک سہیلی سے کیا تو اس نے مجھے دودھ اور اس سے تیار ہونے والی اشیاءسے پرہیز کا مشورہ دیا۔اگلے روز میں نے ان تمام چیزوں یعنی دودھ‘ مکھن ‘پنیر سے پرہیز کا سلسلہ شروع کردیا اور حیرت انگیز طور پر اس جان لیوا تکلیف سے نجات مل گئی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں